اہل بیت

خوشا دِلے کہ دِہندَش ولائے آلِ رسول

کربلا والوں کا غم یاد آیا

کربلا کے جاں نثاروں کو سلام

یاشہیدِ کربلا فریاد ہے

خُون کے چھینٹے جو دیکھے وقت کے کِردار پر

جِس نام سے زندہ ہے تُو

سبیل، اشک لگاتا ہُوں دِیدہ ء نم پر

سفرِ جاں بڑی ثابت قدمی سے کاٹا

آتی ہے ہر اذاں سے صدا تیرے خُون کی

آیا نہ ہوگا اس طرح، حسن و شباب ریت پر

قلم کی تاب کہاں کہ کرے بیانِ غم

کرم کے آشیانے کی کیا بات ہے

پی جو لیتے عباس پانی کو

صغرا دا من لے سوال بابلا

صغرا تک لے ویراں نوں ایہنا مڑ نہیں آؤنا

بے سہاروں کے سہارے

جو خالقِ گلشن تھے ‘ وہی

لب پر شہداء کے تذکرے ہیں

تاریخ اپنے زعم میں اک چال چل گئی

کٹنے والی گردنیں، نام و نشانِ کربلا

دکھائے ہجرت نبیؐ کو اپنے گھاؤ کربلا

مظلوم جب بھی لڑتا ہے

حیدرؓ و زہراؓ کا ثانی کون ہے

حرم سے قافلہ نکلا ہے کربلا کی طرف

لہو لہو دشتِ کربلا ہے

سوئی تیری گود میں زہرا کی آل اے کربلا

باغِ جنّت کے ہیں بہرِ مدح خوانِ اہلبیت

آئمہ اہل بیت ہیں کتنے عظیم لوگ

جب کل بھی رحمت اُن کی تھی

غم حسین ؑ حسنؑ جیسا غم ہے کم تو نہیں

جی لوں اگر نصیب میں حبِّ رسولؐ ہے

خوش ہوں نبیؐ کی آل کی اُلفت میں زندہ ہوں

عزم حسین سرِ حق ایثار اولیاء

ہے کون رونقِ چمن

مقصُود ہے اصل میں تو اَزواج کی ذات

کربلا والے ہمیں در سے رِدا دیتے ہیں

میں نہیں مانگتا زمانے سے

کیا بتائے گا کوئی رِفعتِ بامِ حسنین

کون لا سکتا ہے دنیا میں مثالِ اہلِ بیت

سلام اے گلبدن شہیدو

ہر سو رواں ہوائے خمارِ طرب ہے آج

میں سایہء طوبیٰ کی خنک رُت سے ہوں واقف

اک دن بڑے غرور سے کہنے لگی زمیں

عاشور کا ڈھل جانا، صغراؑ کا وہ مرجانا

حُسین کی دکھ بھری کہانی تمام دنیا سُنا کرے گی

اِس نہج پہ انسان نے سوچا ہی کہاں ہے ؟

دل جب سے ہے خاکِ رہ قنبر کے برابر

مظلومؑ کے ہاتھوں پہ جو دم توڑ رہا ہے

تجھ کو دیارِ غیر کی آب و ہوا پسند

میں تو پنجتن کا غلام ہوں

علی کے ساتھ ہے زہرا کی شادی

کہناں لفظاں نال بیان کراں سر سید دے جو بیتی اے

یہ تو اکثر دہن شاہ زمن سے نکلا

باغ جنت کے ہیں بہرِ مَدح خوانِ اَہلِ بیت